رسائی کے لنکس

سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام، نیا ادارہ کام کیسے کرے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • سائبر کرائم کی تحقیقات، نئی ایجنسی وفاقی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہوگی۔
  • ایف آئی اے سائبر ونگ کے پاس سائبر کرائم کی تمام انکوائریاں، تحقیقات، اثاثہ جات، رائیٹس، پرولیجز نئی قائم کی گئی ایجنسی کو منتقل ہوں گے۔
  • ابھی یہ واضح نہیں کہ نئی ایجنسی کے افسران کی کل تعداد کتنی ہو گی۔
  • نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کی مدتِ ملازمت دو سال ہو گی جس میں مزید دو سال کی توسیع بھی کی جا سکے گی۔
  • ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ملازمین ڈپوٹیشن پر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں کام کریں گے۔

اسلام آباد _ حکومتِ پاکستان نے سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے 'نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی' کے نام سے الگ ادارہ قائم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔

سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کر دیے ہیں۔ یعنی اب سائبر کرائم کی تحقیقات ایف آئی اے کے بجائے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کرے گی۔

سائبر کرائم کی تحقیقات نئی ایجنسی وفاقی وزارتِ داخلہ ماتحت ہوگی۔ البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ نئی ایجنسی کب سے اپنا کام شروع کرے گی۔

یاد رہے کہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب کہ حال ہی میں پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سمیت لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

پاکستانیوں کا ڈیٹا لیک ہونے کی شکایات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے حال ہی میں وزارتِ داخلہ کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2019 سے 2023 کے دوران لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی شہریوں کا نادرا ڈیٹا لیک ہوا تھا اور یہ ڈیٹا ملتان، پشاور اور کراچی کے سینٹرز سے لیک کیا جا رہا تھا۔

سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام پریونشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ایکٹ 2016 کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت ماضی میں سائبر کرائم کی تحقیقات کے اختیارات ایف آئی اے کو دیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ بعض سیاسی جماعتوں اور مختلف تنظیموں نے پیکا ایکٹ کی منظوری کے وقت اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اب اسی ایکٹ کے تحت سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی گئی ہے۔

نیا ادارہ کام کیسے کرے گا؟

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے کیسز کو ڈیل کرنے کی مجاز ہوگی اور اس حوالے سے اس کے علیحدہ تھانے اور فرانزک لیبارٹری ہو گی۔ مگر تاحال یہ واضح نہیں کے نئی انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کی تعیناتی تک اس کی سربراہی کون کرے گا اور سربراہ کی تعیناتی تک یہ ایجنسی کیسے کام کر پائے گئی۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے نئی انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کے بعد پیدا ہونے والے قانونی سوالات پر بات کرنے کے لیے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ سے رابطہ کیا۔ جن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیرِ داخلہ یا وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بات کی جا سکتی ہے۔

البتہ حکومتی نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ نئی ایجنسی فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وسائل، انفراسٹرکچر اور ملازمین کے ساتھ کام کرے گی۔

ذرائع کے مطابق حکومت ایف آئی اے سائبر ونگ کو فراہم ہونے والے وسائل سے زیادہ وسائل نئی ایجنسی کو فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور امکان ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں اس کے لیے فنڈز بھی رکھے جائیں گے۔

نئی ایجنسی کا انتظامی ڈھانچہ کیسا ہوگا؟

سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے مقدمات کی تحقیقات کرے گی اور ایف آئی اے سائبر ونگ کے پاس سائبر کرائم کی تمام انکوائریاں، تحقیقات، اثاثہ جات، رائیٹس، پرولیجز نئی قائم کی گئی ایجنسی کو منتقل ہوں گے۔

نئی ایجنسی ڈائریکٹر جنرل، ایڈیشنل ڈائریکٹرز جنرل، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، اور ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے متعین کردہ افسران پر مشتمل ہو گی۔

سرکاری نوٹی فکیشن میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ نئی ایجنسی کے افسران کی کل تعداد کتنی ہو گی۔ البتہ یہ کہا گیا ہے کہ ایجنسی کے سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل کو دو سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جائے گا جب کہ کارکردگی کی بنیاد پر ڈائریکٹر جنرل کی مدتِ ملازمت میں مزید دو سال کی توسیع کی جاسکے گی۔

وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ایسا افسر تعینات کرے گی جو کم سے کم 21 گریڈ کا افسر یا 63 برس سے کم عمر ہو۔

نئی ایجنسی کے سربراہ کے لیے کم سے کم 15 برس کا کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل فرانزک، سائبر ٹیکنالوجی، قانون، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تجربے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل 65 برس کی عمر تک پہنچنے پر یا تقرری کی مدت مکمل ہونے تک عہدے پر فائز رہ پائیں گے جب کہ انہیں پولیس آرڈر 2002 کے تحت صوبے کے آئی جی کو حاصل اختیارات کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔

تفتیشی افسر اور اس کے ماتحت دیگر افسران پولیس آرڈر 2002 کے تحت ادارے میں خدمات انجام دیں گے۔

سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ملازمین ڈپوٹیشن پر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں کام کریں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا نوٹی فکیشن 24 اپریل کو جاری ہوا تھا لیکن 29 اپریل کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے دو مئی کو مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہنا ٹھا کہ سائبر کرائم کو ڈیل کرنے کے لیے ایف آئی اے کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں اور ڈیجیٹل رائیٹس کے لیے ایف آئی اے فورم نہیں ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG